04  ستمبر 2015ء

پریس ریلیز ۔ انفراسٹرکچر میں شراکت پر فورم

 

اسلام آباد: پاکستان میں ٹیلی کام آپریٹرز کی جانب سے ناکافی انفراسٹرکچرمیں شراکت/آوٹ سورسنگ کی وجوہات کا مطالعہ کرنے اور پتہ چلانے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے اسلام آباد میں واقع تھنک ٹینک"آئی سی ٹی فورم پاکستان"کے تعاون سے پی ٹی اے ہیڈ کوارٹرز ممیں ایک مباحثتی فورم کا اہتمام کیا۔ چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹر اسمعیل شاہ، پی ٹی اے کے ممبر کمپلائنس و انفورسمنٹ)تعمیل و نفاذ( جناب عبدالصمد، پی ٹی اے کے ممبر)فنانس( جناب طارق سلطان اور سی ای او آئی سی ٹی فورم پاکستان، جناب پرویز افتخارنے ٹاور کمپنیوں اور آئی ٹی و ٹیلی کام کے شعبوں کے ماہرین اور لیڈرز کے ہمراہ اس مباحثے میں شرکت کی۔

سی ای او آئی سی ٹی فورم پاکستان جناب پرویز افتخار نے فورم کا تعارف کرواتے ہوئے انفراسٹرکچر میں شراکت اور آوٹ سورسنگ کی افادیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ موبائل ٹیلیفونی کی بنیاد رکھنے والے ادارے مسابقتی برتری کے حصول کے لیے حاسدانہ طور پر اپنے ٹاورزکی حفاظت کرتے ہیں تاہم اب ٹیلی کام آپریٹرز سخت مقابلے کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ 3جی اور 4جی میں سرمایہ کاری کی بدولت ان کے نفع پر کئی گنا دباو بڑھ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی کام ٹاورز میں شراکت اور آوٹ سورسنگ ایک عالمی رحجان بن چکا ہے۔

سیشن کے دوران، مقررین نے ٹیلکوز، ٹاور کوز، سپلائی کنندگان اورحکومت(MoIT)اور ریگولیٹر(PTA)کے متعلقہ نکتہ نگاہ کو پیش کیا۔ تمام مقررین نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ ٹیلکو کے ملکیتی ٹاورز کاروباری لاگت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ٹاور انفراسٹرکچر میں شراکت یا آوٹ سورسنگ سے اس مسئلے کے فوری حل میں مدد ملتی ہے۔ اس نظریے کو پاکستان میں موجود ٹیلکوزمیں اور ان کے مابین متعدد بار زیر بحث لایا جا چکا ہے۔ حتی کے اس سلسلے میں آزمائشی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ پی ٹی اے کی جانب سے "ٹاور کی فراہمی کے نو لائسنسوں"کا اجرا کیا جا چکا ہے جن میں سے دو لائسنس گذشتہ نو مہینوں کے دوران جاری کیے گئے ہیں۔ تاہم پھر بھی پاکستان میں "کرایہ داری کا تناسب" تاحال1٫3 ہے جبکہ ٹاورکو کی کامیابی کے لیے 2٫5 سے زیادہ کا تناسب ضروری ہے۔

ماہرین نےدرپیش چند بڑے مسائل کی وضاحت کے لیے اپنے تجربات اور وفاقی و صوبائی ٹیکسوں میں پائے جانے والے فرق، مقامی اداروں کی جانب سے این و سی کے لیے وصول کی جانے والی فیسوں، ملک کے مختلف حصوں میں اختیار کیے جانے والے ضابطہ عمل، ٹیلی کام انفراسٹرکچر کی پٹہ داری/فروخت کے لیے قوانین، ٹاور کوزکاروبار کی"غیرٹیلی کام"نوعیت سے متعلق پی ٹی اے کے عزم،ٹیلی کوز میں تبدیلی کے حوالے سے چند مراحل پر مزاحمت  اور ملک بھر میں موجود چالیس ہزار ٹاورز کو مکمل طور پر یا زیادہ تر حصے کو خریدنے کے لیے درکار سرمائے کی بڑی مقدارکے متعلق بتایا۔ماہرین نے خیال پیش کیا کہ اگر مذکورہ بالا رکاوٹوں کو دور کر دیا جائے تو اس سطح کی سرمایہ کاری صرف براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔

اپنے اختتامی بیان میں، چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ آپریشنز کی لاگت میں کمی اور بہتر سروسز بالخصوص براڈ بینڈ کی بہتر سروسز کی فراہمی کے لیے، ٹیلی کوز کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے انفراسٹرکچر کو آوٹ سورس کرنا شروع کردیں۔پی ٹی اے کی جانب سے ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی کی یقینی دہانی کرواتے ہوئے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مباحثے کے دوران سامنے آنے والے تمام تر مسائل پر قابوپانے کے لیے تمام شراکت داروں کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔ انہوں نے فورم کے مشترکہ انعقاد کے لیے آئی سی ٹی فورم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سیشن کی باقاعدہ تیار شدہ رپورٹ مرتب کرنے کی درخواست کی۔

خرم اے مہران، ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز