06  اگست 2016ء

وضاحت

پریس ریلیز 

اسلام آباد: )5 اگست 2016(:  مورخہ 5 اگست 2016 کو روزنامہ ڈان میں "اے جی پی 3جی، 4جی سپیکٹرم کی نیلامیوں کا جائزہ لے گی"، کے عنوان سے چھپنے والی خبر غلط، گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ کہانی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا موقف حاصل کیے بغیر شائع کی گئی تھی جو سراسر صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔درحقیقت اس کہانی کی اشاعت انتہائی فعال سیکٹر کے ریگولیٹر اور وزارت کے تاثر کو خراب کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی ایک واضح کوشش تھی۔ مزید براں اس رپورٹ میں کسی قسم کے ثبوت کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ چندایسی "ریکارڈ شدہ بات چیت"کی موجودگی کے متعلق مکمل طور پر غلط الزامات لگائے گئے جوسرے سے فراہم/دستیاب ہی نہیں کی گئی۔ یہ انتہائی غلط اور من گھڑت ہے اور اگر ایسی کوئی چیز ہے بھی تو اسےریکارڈ پر لایا جانا چاہیئے۔

مزید براں، پی ٹی اے کی جانب سے ٹوک انداز میں یہ چیزریکارڈ پر لائی جاتی ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف آڈٹ، پوسٹس، ٹیلی گراف اور ٹیلیفونز کے آڈٹ افسران24 اپریل 2014 کو منعقد ہونے والی سپیکٹرم کی نیلامی کا پہلے ہی آڈٹ کر چکے ہیں اور یہ سرگرمی 14 جولائی 2014 سے لے کر 5 ستمبر2014 تک پی ٹی اے کے جامع آڈٹ کا حصہ تھی۔آڈٹ افسران نے تمام ریکارڈ کا معائنہ کیا اور وہ اپنے تمام سوالات پر پی ٹی اے کی جانب سے دیئے جانے والے جوابات پر مطمئن تھے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ نیلامی کے عمل کے متعلق رپورٹ مسلسل طور پر معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کو دی جاتی رہی تھی۔ 2014 کے آڈٹ کے بعد، 2015 کے دوران ایک اور آڈٹ کیا گیا تھا اور اس دوران بھی مذکورہ بالا رپورٹ میں صراحت کردہ اعتراضات میں سے کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی ان پر بات چیت کی گئی تھی۔

2014 میں ہونے والی نیلامی کا انعقاد انتہائی شفاف انداز میں کیا گیا تھا اور اس کے متعلق تفصیلات متعددفورمز پر پیش کی گئیں تھیں اور یہ تفصیلات تاحال پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ درحقیقت ایسا بھی ہوا کہ کسی شخص نے معزز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس بھی کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کیس فوری طور پر خارج کر دیا گیا۔نیلامی کے تمام مراحل کو معلوماتی دستاویز میں دی گئی شرائط و ضوابط اور بین الاقوامی مشیران کی سفارشات کے مطابق مکمل کیا گیا تھا۔ لہذا کسی قسم کی بے قاعدگیاں، مالی نقصان یا مقابلے سے اخراج کی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔2014 میں ہونے والی نیلامی پپرا اور دیگر مروجہ قوانین کے مطابق کی گئی اوراسے دنیا بھر میں پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ جی ایس ایم اے کی جانب سے ایک نمایاں ایوارڈ بھی ملا۔ مزید براں یہ کھلی نیلامی تھی اور متعدد ٹیلی کمپنیز، حکومتی اداروں اور صحافیوں نے اس عمل کا مشاہدہ کیا۔

یہ امر باعث تعجب ہے کہ جون 2016 میں ہونے والی حالیہ نیلامی کا ابھی آڈٹ بھی نہیں ہوا لیکن پھر بھی مذکورہ بالا رپورٹ میں اس نیلامی پر اعتراضاتاکے متعلق بات کی گئی ہے۔

850 میگا ہرٹز میں 10 میگاہرٹز کی ایک سلاٹ کی حالیہ نیلامی کو بین الاقوامی مشیران کی جانب سے مارکیٹ کے تفصیلی مطالعے کے بعد نیلامی کے لییے پیش کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھی جانی چاہیئے کہ یہ سپیکٹرم گذشتہ کئی سالوں سے خالی تھا۔ نیلامی کے دوران معلوماتی دستاویز، وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے جاری کردہ پالیسی ہدایت نامے اور نیلامی کے لیے مشاورتی کمیٹی کے دوران ہونے والی مشاورت کے نتیجے میں تیار کردہ دستاویز اور دیگر متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کیا گیا۔اس طرح یہ عمل ایک متعدد مرحلہ جاتی نگرانی کے نظام کے تحت ہوا۔ نیلامی کے طریقہ کار کے مطابق، صرف ایک موبائل کمپنی نےنیلامی میں شرکت کے لیے مہربند بولی جمع کروائی۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ متعلقہ ریکارڈ دستیاب ہے اورمستقبل میں جب کبھی بھی آڈٹ حکام کی جانب سے اس کی ضرورت پڑی تو یہ ریکارڈ فراہم کر دیا جائے گا۔

حتمی طور پر یہ بتاتے چلیں کہ یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جانی چاہیئے کہ ان دو نیلامیوں کے ذریعے حکومت کو نہ صرف کئی بلین روپوں کی بھاری آمدنی ہوئی بلکہ ان کے ذریعے ٹیلی کام آپریٹرز کو بہتر کاروباری مواقع بھی میسر ہوئے اور سب سے اہم طور پر صارفین کو موبائل براڈ بینڈ کی تیز سروسز میسر آئیں۔ 2014 کی نیلامی سے قبل براڈ بینڈ صارفین کی 3 ملین کی تعداد اب تک 33 ملین صارفین تک پہنچ چکی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں نئی کمپنیاں معرض وجود میں آ رہی ہیں جو نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہیں بلکہ ان کی بدولت پاکستانی لوگوں کو درپیش کئی مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔